چین نے اپنا سورج بنا لیا

اس آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں انسان نے وہ کام کر دکھایا ہے جس پر گزشتہ ایک صدی سے کام ہو رہا تھا۔ گزشتہ ایک صدی کا ریکارڈ ہے کہ سائنسدانوں نے سر توڑ کوششوں کے ساتھ ساتھ  بے بَہا پیسہ خرچ کیا ہے کہ کسی طرح کچھ بھی کر کے انرجی (توانائی) یا بجلی بنانے کا کوئی ایسا ذریعہ بنا لیں جس سے ماحول پر کچھ بھی بُرا اثر نہ پڑے۔

آج کل سوشل میڈیا پر یہ خبر چل رہی ہے کہ چین نے اپنا ایک مصنوعی سورج بنا لیا ہے۔ اب اصل خبر کیا ہے اور اگر چین نے ایسا کچھ کر لیا ہے تو یہ انسانیت کے لیے کتنا بڑا کارنامہ ہے؟ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ انسان کے چاند پر پہنچنے سے بڑا کارنامہ ہے۔

یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ دور حاضر میں انرجی (توانائی) یا بجلی کے بغیر کوئی بھی بڑا کام نا ممکن ہے۔بہت سے الیکٹرک اور الیکٹرانکس چیزوں کے ساتھ ساتھ اب ذرائع آمدورفت بھی بجلی سے چلتے ہیں۔

دنیا میں بجلی بنانے کے مختلف طریقے ہیں۔ جیسے جیسے بجلی کا استعمال او ر مانگ بڑھ رہی ہے، پانی سے بننے والی بجلی ناکافی ہو تی جا رہی ہے۔ بجلی کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیےبہت سے دوسرے قیمتی ذرائع پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً گیسولین، ڈیزل، پیٹرول یا ایٹمی بجلی گھر وغیرہ۔

اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بجلی بنانے کے بیشتر طریقے کرّہ ارض کو تباہ کر رہے ہیں۔ایٹمی بجلی گھر کے ذریعے بجلی بنانے سے بہت بڑی مقدار میں ریڈیوایکٹو شعاعیں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح کوئلہ اور تیل سے بجلی بنانے کے عمل سے فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے۔

اس صورت ِحال میں بجلی بنانے کا صرف ایک طریقہ ایسا ہے جو بالکل محفوظ اور کسی بھی قسم کی آلودگی سے پاک ہے اور اس پر انسان گزشتہ ایک صدی سے کام کر رہا ہے۔ اس طریقہ کار میں انسان نے سورج کو استعمال کیا ہے ، اور حاصل ہونے والی توانائی کو شمسی توانائی یا سولر انرجی کہتے ہیں۔

سورج دو گیسوں  (یائیڈروجن اور ہیلیم ) سے مل کر بنا ہے ۔ ہائیڈروجن کے آئسوٹوپس ہر وقت آپس میں ملتے رہتے ہیں، اس عمل کو "فیوژن" کہتے ہیں۔ان آئسوٹوپس کے ملنے سے ہیلیم گیس بنتی ہے اور اس عمل سے بہت زیادہ حرارت پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے سورج کی سطح  کا درجہ حرارت 55000 ڈگری سنٹی گریڈ ہے ۔ سورج ایک سیکنڈ میں 500 ملین میٹرک ٹن (500 million metric ton) ہائیڈروجن کو فیوژ کرتا ہے۔ اسی فیوژن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی حرارت زمین تک پہنچتی ہے۔

انسان گزشتہ ایک صدی سے کوشش کر رہا ہے کہ وہ بجلی کی پیداوار ایٹمی بجلی گھروں (جس میں ایٹم کا نیوکلیس ٹوٹتا ہے) کی بجائے سورج کے فارمولا (جس میں مختلف ایٹم کے نیوکلیس ملتے ہیں) پر  کرے۔یہ کام کسی بڑی اور خاص مشین کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔اس کے لیے سائنسدانوں نے بہت سی مشینیں بنائی ہیں۔ اُن مشینوں میں سے اب تک سب سے بہترقسم چین کے پاس ہے۔

اس مشین پر بہت سے ممالک کام کر چکے ہیں۔ جن میں امریکہ، روس، فرانس، انڈیا، ساوتھ کوریا شامل ہیں۔ چین کے پاس یہ مشین 11 میٹر اونچی اور 8 میٹر چوڑی ہے۔ اس مشین کا وزن 360 ٹن ہے۔ اس مشین کا نام ایکسپیریمنٹل ایڈوانسڈ سُپر کنڈکٹنگ ٹوکامیک (Experimental advanced super conducting Tokamak) ہے۔یہ مشین چین کے ادارہ چائینیز اکیڈمی آف سائنسز انسٹی ٹیوٹ آف پلازما فزکس (Chinese academy of sciences institute of plasma physics) میں رکھی گئی ہے۔

چین نے تقریباً دس سال پہلے اس مشین پر تجربہ کیا تھا۔ اس تجربہ میں یہ مشین صرف دس سیکنڈ تک سورج کی گرمی کو اپنے اندر روک سکی تھی۔

اس مشین کے کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اِس میں بہت سی الیکٹرومیگنیٹک (Electromagnetic) فیلڈز بنی ہوئی ہیں۔ اس مشین میں ایسا مقناطیسی ماحول بنا ہوا ہے کہ اِس کے اندر موجود ہائیڈروجن ہوا میں ہی معلق رہتے ہیں۔یعنی اِس مشین کے سینٹر میں ایک مخصوص جگہ پر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ پھر اُن ہائیڈروجن کو اِس طرح کا ماحول دیا جاتا ہے کہ یہ ہائیڈروجن آپس میں جڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس جڑنے کے عمل کو "فیوژن" کہتے ہیں۔

اس عمل کے نتیجے میں بہت زیادہ حرارت پیدا ہوتی ہے۔حرارت کی شدّت کا اندازہ اس پات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ حرارت سورج کی حرارت سے بھی 6 گنا زیادہ ہوتی ہے۔ چین نے اپنے تجربہ میں اس حرارت کو 10 سیکنڈ تک محفوظ کیا۔ اس تجربے کی نتیجے میں پیدا ہونے والی حرارت 120 ملین ڈگری سنٹی گریڈ تھا۔

سوشل میڈیا پر یہ خبر اس طرح گردش کر رہی ہے کہ چین نے اپنا سورج بنا کر خلا میں چھوڑ دیا ہے۔ جبکہ حقیقت وہی ہے جو اوپر بیا ن کر دی گئی ہے۔

اس کام کو بڑی کامیابی اُس وقت کہا جائے گاجب یہ درجہ حرارت یا آئسو ٹوپس کے ملنے کا عمل مشین کے اندر ایک لمبے عرصے تک جاری رہے اور اِس حرارت کو محفوظ کر کے بجلی بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

چین کی اِس مشین کے بارے میں جدید ترین کامیابی یہ ہے کہ اُنہوں نے اس مشین میں یہ عمل 17 منٹ تک جاری رکھا جو کہ پہلے کوئی اور مُلک نہیں کر سکا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس عمل سے کتنی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر سائنسدان1 لیٹر پانی سے سارے ہائیڈروجن نکال لیں تو اس سے سائنسدان اتنی بجلی بنا سکیں گے جتنی بجلی 300 لیٹر مٹی کا تیل، یا گیسولین سے پیدا کی جا سکتی ہے۔

اس طریقہ کار سے ماحولیاتی آلودگی نہ ہونے کے برابر ہو گی۔اور کُرّہ ارض کو ریڈیو ایکٹو شعاعوں، زہریلی گیسوں سے پاک کیا جا سکے گا۔ سائنسدان  اِس بات کی اُمید لگا رہے ہیں کہ 2050 تک اس پراجیکٹ پر کام مکمل ہو جائیگا اور اس عمل سے بجلی بنانے کا عمل شروع ہو چکا ہو گا۔

اُردو سبق سے پوچھیں:

کیا آپ کے پاس بچوں کے  کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ  کے حصول سے متعلق کوئی سوال ہے؟ پاکستان میں شناختی دستاویزات سمیت ملک میں مختلف خدمات کے اختیارات کے بارے میں ذاتی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے، آپ ہمیں اُردو سبق فیس بُک پیج پر ایک نجی پیغام بھیج سکتے ہیں یا کمنٹ باکس میں اپنا سوال بھیج سکتے ہیں۔