نسطورا راہب
حضرت خدیجہ عرب کے شریف خاندان کی بہت مالدار عورت تھیں۔ آپ
کی شرافت نسبی اور عفت و پاک دامنی کی وجہ سے لوگ آپ کو طاہرہ کے نام سے پکارتے
تھے۔ حضرت خدیجہ کی مالداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کا سامانِ
تجارے قریش کے کُل سامان کے برابر ہوتا تھا۔
جب رسول اللہ کی عمر شریف پچیس سال کی ہوئی اور گھر گھر
میں آپ کی امانت و دیانت کا چرچا ہوا تو حضرت خدیجہ نے آپ کو پیغام بھیجا کہ آپ
میرا سامان لے کر شام جائیں تو میں آپ کو معمول سے زیادہ معاوضہ دوں گی۔آپ نے
اپنے چچا ابو طالب کی مالی مشکلات کی وجہ سے اس پیغام کو قبول کیا ۔آپ حضرت خدیجہ
کے ایک غلام میسرہ کے ساتھ شام کے لیے روانہ ہوئے۔
بصریٰ میں ایک راہب رہتا تھا جس کا نام نسطورا تھا۔ آپ جب
بصری ٰپہنچے تو وہ دیکھ کر آپ کی طرف آیا اور آپ کو دیکھ کر یہ کہا کہ عیسیٰ ا بنِ
مریم کے بعد سے لے کر اب تک یہاں آپ کے سوا کوئی نبی نہیں آیا۔ راہب میسرہ سے مخاطب
ہوا اور کہا کہ ان کی آنکھوں میں یہ سرخی ہے۔ میسرہ نے کہا کہ یہ سرخی ان سے جدا
نہیں ہوتی۔ راہب بولا: "یہ وہی نبی ہے اور یہ آخری نبی ہے۔"
پھر آپ خریدوفروخت میں مشغول ہوئے ۔ اسی دوران ایک شخص آپ
سے جھگڑنے لگا اور اس نے آپ سے کہا کہ لات و عزیٰ کی قسم کھائیے۔ آپ نے فرمایا
کہ میں نے کبھی لات و عزیٰ کی قسم نہیں کھائی اور اگر جب کبھی میرا لات و عزیٰ پر گذر
ہوتا ہے تو میں اعراض اور کنارہ کشی کر لیتا ہوں۔ یہ سن کر اس شخص نے کہا کہ بے شک
بات تو آپ ہی کی ہے یعنی آپ صادق اور سچے ہیں اور آپ ہی وہ شخص ہیں جس کی شان
اور صفات کو ہمارے علماء اپنی کتابوں میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔
میسرہ کہتے ہیں کہ دوپہر کے وقت جب گرمی کی شدت اپنے عروج
کو ہوتی تو میں دو فرشتوں کو دیکھتا تھا کہ وہ آپ پر سایہ کیے ہوئے ہیں۔ جب آپ شام سے واپس آئے تو دوپہر کا وقت تھا
اور دو فرشتے آپ پر سایہ کیے ہوئے تھے۔ حضرت خدیجہ نے جب بالا خانے سے آپ کو دیکھا
تو آس پاس کی تمام عورتوں کو بھی دکھلایا
اور تعجب کرنے لگیں۔
میسرہ نے حضرت خدیجہ کو سفر کے تمام حالات و واقعات سنائے
اور مال تجارت اور منافع حضرت خدیجہ کے سپرد کیا۔ اس مرتبہ آپ کی برکت سے حضرت
خدیجہ کو اس قدر منافع ہوا کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔حضرت خدیجہ نے جتنا
معاوضہ مقرر کیا تھا اس سے زیادہ دیا۔
حضرت خدیجہ نے آپ کے تمام حالات سفر اور نسطورا راہب کی
باتیں اور فرشتوں کا آپ پر سایہ کرنا ورقہ بن نوفل سے جا کر بیان کیا۔ ورقہ نے
کہا کہ خدیجہ اگر یہ واقعات سچے ہیں تو پھر یقینا محمد اس امت کے نبی ہیں اور میں
خوب جانتا ہوں کہ امت میں ایک نبی ہونے والے ہیں جن کا ہم کو انتظار ہے اور ان کا
زمانہ قریب ہے۔ ان واقعات کو سن کر حضرت خدیجہ کے دل میں آپ سے نکاح کا شوق پیدا
ہوا۔ چنانہ سفر شام سے واپسی کے دو مہینے بعد خود حضرت خدیجہ نے آپ سے نکاح کا پیام
دیا۔ آپ نے اپنے چچا کے مشورہ سے اس کو قبول فرمایا۔ مقررہ تاریخ پر آپ اپنے چچا
ابو طالب اور حضرت حمزہ اور دیگر روسائے خاندان کی معیت میں حضرت خدیجہ کے یہاں تشریف
لائے۔ حضرت خدیجہ کے والد کا تو پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا۔ نکاح کے وقت حضرت خدیجہ
کے چچا عَمرو بن اسد موجود تھے۔ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا۔ نکاح کے وقت آپ کی
عمر مبارک پچیس سال تھی جبکہ حضرت خدیجہ کی عمر شریف چالیس سال تھی۔ بیس اونٹ مہر
مقرر ہوا۔ آپ کا یہ پہلا نکاح تھا اور حضرت خدیجہ کا تیسرا نکاح تھا۔
0 Comments